Custom Search

Friday, March 30, 2012

انور مسعود کے مزاحیہ قطعات‎


بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہو سکتا نہیں
ہم نے سُوکھے دودھ کا ڈبا جو ہے رکھا ہوا
گھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لئے
کام کرنے کے لئے اَبا جو ہے رکھا ہوا

اُسے سوجھے گی نارنگی نہ گاڑی
اِسی تکلیف میں کھویا رہے گا
سُنا دو کوئی نثری نظم اُس کو
کبیرا حشر تک روتا رہے گا

اُستاد نے شاگرد سے اِک روز یہ پوچھا
ہے جمعہ مُبارک کی فضیلت کا تجھے علم
کہنے لگا شاگرد کہ معلوم ہے مجھ کو
ریلیز اسی روز تو ہوتی ہے نئی فلم

کام کی کثرت سے گھبرایا تو اُس کے ذہن میں
کروٹیں لینے لگی ہیں شاعری کی مُمکِنات
اِک ذرا سی میز پر ہیں فائلوں کے چار ڈھیر
فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلات

ہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سے
جو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
افسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئی
اُردو جو بولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اُس نے کہا کہ مجھ کو ہے تنقید سے شغف
میں نے کہا کہ فن کے سب اَسرار فاش کر
اُس نے کیا جو عُذر تو پھر میں نے یہ کہا
جرأت کی شاعری میں تصوف تلاش کر


No comments:

Post a Comment